پاکستان کا شعبۂ صحت، خاص طور پر پنجاب کا، ایک عرصے سے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ یہ مسائل جہاں ادارہ جاتی عدم فعالیت، غیر مستقل پالیسیاں اور سیاسی مداخلت کی نشاندہی کرتے ہیں، وہیں یہ نظام کے بگاڑ کی گہرائی کو بھی ظاہر کرتے ہیں۔ محکمہ پرائمری اینڈ سیکنڈری ہیلتھ کیئر کے معاملات اس کی بہترین مثال ہیں، جہاں اہم انتظامی عہدے طویل عرصے سے خالی ہیں اور نظام عارضی انتظامات کے سہارے چل رہا ہے۔
اداروں کی عدم فعالیت اور خالی عہدے موجودہ سیکرٹری صاحبہ کے دور میں بھی سوالیہ نشان ہیں چونکہ سی ایم ہاؤس میں موجود پرنسپل سیکرٹری کی سیٹ تگڑی سیٹ ہے اپنی قابلیت کو منوانے کے لیے ۔
صوبائی دارالحکومت لاہور کے قریب واقع اضلاع جیسے قصور، شیخوپورہ، اور حافظ آباد میں متعدد اہم عہدے طویل عرصے سے خالی ہیں۔ ضلع قصور کی مثال لی جائے تو یہاں ڈسٹرکٹ ہیلتھ آفیسر (پی ایس) اور تین تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتالوں میں مستقل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ایم ایس) کی عدم موجودگی ادارہ جاتی کمزوری کو واضح کرتی ہے۔ عارضی انتظام کے طور پر گریڈ 17 کے ناتجربہ کار میڈیکل آفیسرز یا مختلف کنسلٹنٹس کو ایڈمنسٹریٹرز کے طور پر تعینات کرنا کسی بھی طرح ایک مستحکم اور مؤثر حکمت عملی نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ صحت کے ادارے بدنظمی اور ناقص کارکردگی کا شکار ہو چکے ہیں۔ان مسائل کی بڑی وجہ حکومتی سطح پر ناقص پالیسیاں اور سیاسی مداخلت ہیں۔ انتظامی معاملات کو ادارہ جاتی دائرے سے نکال کر وزیراعلیٰ کے ہاتھ میں دینا ان مسائل کو مزید بڑھا دیتا ہے۔ سیاسی مداخلت کے باعث کسی بھی اہم عہدے پر مستقل تعیناتی ممکن نہیں ہو پاتی اور نتیجتاً صحت کے اداروں کی کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔یہ صورتحال صرف قصور تک محدود نہیں بلکہ پنجاب کے دیگر اضلاع میں بھی یہی حال ہے۔ مستقل افسران کی عدم موجودگی اور عارضی چارجز پر کام چلانے کا رجحان ظاہر کرتا ہے کہ صوبائی انتظامیہ ایک واضح اور مؤثر پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی ہے۔ یہ حکومت کی غیر سنجیدگی اور ترجیحات کے غلط تعین کی واضح عکاسی ہے۔
یہ ادارہ جاتی کمزوریاں براہ راست عوام پر اثر انداز ہو رہی ہیں۔ جب ایک ضلع میں صحت کے شعبے کی قیادت کے لیے کوئی قابل اور مستقل افسر موجود نہ ہو، تو صحت کی سہولیات کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ ہسپتالوں میں سہولیات کی کمی، مریضوں کے ساتھ غیر ذمہ دارانہ رویہ، اور صحت کی بنیادی خدمات کی عدم فراہمی جیسے مسائل روز کا معمول بن جاتے ہیں۔عوام، جو پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری اور دیگر مسائل کا شکار ہیں، صحت کے ناقص نظام کی وجہ سے مزید مشکلات میں گھِر جاتے ہیں۔ حکومت کی جانب سے ان مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ کوششیں نہ ہونے کی وجہ سے عوامی اعتماد بھی ختم ہوتا جا رہا ہے۔
حکومتی ذمہ داری اور اصلاحات کی ضرورت
ان مسائل کا حل صرف اس وقت ممکن ہے جب حکومت صحت کے شعبے کو اپنی اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ اس کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے:
1. مستقل افسران کی تعیناتی: صحت کے اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لیے تمام اہم عہدوں پر تجربہ کار اور قابل افسران کی مستقل تعیناتی یقینی بنائی جائے۔
2. سیاسی مداخلت کا خاتمہ: صحت کے شعبے کو سیاسی مداخلت سے پاک کرکے ادارہ جاتی خودمختاری دی جائے تاکہ فیصلے میرٹ کی بنیاد پر کیے جا سکیں۔
3. واضح پالیسی کی تشکیل: ایک ایسی جامع پالیسی ترتیب دی جائے جو اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور صحت کی سہولیات کو عام آدمی تک پہنچانے میں مؤثر ہو۔
4. نگرانی اور جوابدہی کا نظام: صحت کے شعبے میں بدانتظامی اور کرپشن کے خاتمے کے لیے ایک مؤثر نگرانی اور جوابدہی کا نظام نافذ کیا جائے۔
ہسپتالوں میں ادویات کی شدید تر قلت ہے روٹین کی ادویات پر عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے چہ جائیکہ وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف مختلف پروگرامز چلا کر عوام کو صحت کی بہترین سہولیات دینے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگارہی ہیں ایسے میں ان کو دیکھنا ہوگا کہ آخر کون سی بیوروکریسی میں موجود خامیاں یا عناصر ہیں جو ان اقدامات کو ثبوتاژ کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔
پنجاب کے صحت کے نظام کی موجودہ صورتحال حکومتی ناکامی اور ناقص پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ اگر یہ مسائل بروقت حل نہ کیے گئے تو نہ صرف صحت کے ادارے مزید بگاڑ کا شکار ہوں گے بلکہ عوام کے مسائل بھی بڑھیں گے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ان مسائل پر سنجیدگی سے غور کرے اور صحت کے شعبے کو بہتر بنانے کے لیے عملی اقدامات کرے تاکہ عوام کو معیاری صحت کی سہولیات فراہم کی جا سکیں۔
